السلام علیکم میرے پیارے قارئین! کیا حال چال ہیں؟ امید ہے سب ہنسی خوشی ہوں گے۔ آج میں ایک ایسے موضوع پر بات کرنے جا رہا ہوں جو نہ صرف ہمارے خوبصورت پاکستان کے دیہی علاقوں کو نئی زندگی دے سکتا ہے بلکہ اس میں ہمارے جیسے نوجوانوں کے لیے شاندار مواقع بھی چھپے ہیں۔ آپ نے “دیہی سیاحت” کے بارے میں تو سنا ہی ہو گا، ہے نا؟ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اسے کیسے منظم کیا جائے اور سب سے اہم بات، سیاحوں کی اصل خواہشات کو کیسے سمجھا جائے؟میں نے اپنے تجربے میں دیکھا ہے کہ اگر ہم واقعی اپنے دیہی علاقوں کی قدرتی خوبصورتی اور ثقافت کو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک “دیہی سیاحت منصوبہ ساز” کے طور پر سوچنا ہو گا۔ یہ صرف جگہ دکھانا نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا تجربہ فراہم کرنا ہے جو سیاحوں کے دلوں میں گھر کر جائے۔ اور اس کے لیے، “کسٹمر کی ضروریات کا تجزیہ” کرنا بہت ضروری ہے۔ آخر، جب تک ہمیں یہ نہیں پتہ چلے گا کہ ہمارے مہمان کیا چاہتے ہیں، ہم انہیں بہترین سروس کیسے دے پائیں گے؟ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں سیاحت کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور 2025 تک اس کی آمدنی 4 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دیہی سیاحت میں کتنی صلاحیت موجود ہے۔ حالیہ رجحانات بھی بتا رہے ہیں کہ لوگ اب شہروں کی بھیڑ بھاڑ سے دور سکون اور فطرت کے قریب وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک سنہری موقع ہے کہ ہم اپنے دیہی علاقوں کو ایک منفرد اور دلکش سیاحتی مقام بنائیں۔تو آئیے، اس اہم اور دلچسپ موضوع پر مزید گہرائی میں بات کرتے ہیں۔ اس تحریر میں ہم دیہی سیاحت کے نئے زاویے اور کسٹمر کی خفیہ خواہشات کو کیسے پہچانا جائے، اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔ نیچے دی گئی تحریر میں اس بارے میں مزید معلومات حاصل کریں۔
دیہی سیاحت: ایک خواب جسے حقیقت بنانا ہے
پاکستان کے دیہی علاقوں کا دلکش نظارہ
السلام علیکم میرے پیارے دوستو! جب میں اپنے گاؤں جاتا ہوں تو وہاں کی خالص ہوا، سرسبز کھیت اور رات کے وقت آسمان پر چمکتے ستارے دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ مجھے ہمیشہ لگتا ہے کہ یہ خوبصورتی صرف میری نہیں، بلکہ پوری دنیا کے ساتھ شیئر ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک کے دیہی علاقے، خاص طور پر شمالی علاقہ جات، سندھ کے صحرائی علاقے یا پنجاب کے لہلہاتے کھیت، ہر ایک اپنی جگہ ایک کہانی سناتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ لوگ شہروں کی بھیڑ بھاڑ سے تنگ آ کر اب سکون کی تلاش میں دیہی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ انہیں نہ صرف فطرت کے قریب رہنا ہوتا ہے بلکہ وہ ہماری ثقافت اور روایتی طرز زندگی کو بھی قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ میرے تجربے میں، یہ صرف ایک سفر نہیں ہوتا، بلکہ ایک ایسا تجربہ ہوتا ہے جو روح کو سکون دیتا ہے اور یادگار بن جاتا ہے۔ میں نے کئی بار محسوس کیا ہے کہ جب کوئی غیر ملکی سیاح ہمارے گاؤں میں آتا ہے تو اس کی آنکھوں میں ایک چمک ہوتی ہے، ایک حیرانی ہوتی ہے جو بتاتی ہے کہ اس نے ایسا کچھ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ احساس ہی میرے اندر مزید جوش بھر دیتا ہے کہ ہم اپنے دیہی ورثے کو مزید اجاگر کریں۔
چھپے ہوئے موتیوں کی تلاش
ہمارے دیہی علاقوں میں بہت سے ایسے چھپے ہوئے موتی ہیں جنہیں اب تک دنیا نے نہیں دیکھا۔ مجھے یاد ہے جب میں پچھلی بار سوات گیا تھا تو وہاں کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایک بوڑھے چاچا سے میری ملاقات ہوئی جو ہاتھوں سے بنائی گئی روایتی چیزیں بیچ رہے تھے۔ ان کی سادگی اور ان کے کام کی نفاست نے میرا دل جیت لیا۔ ایسے ہی ان گنت لوگ اور جگہیں ہیں جو صرف دریافت ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔ دیہی سیاحت کا مقصد صرف خوبصورت مقامات دکھانا نہیں ہے، بلکہ ان کی کہانی سنانا ہے، وہاں کے لوگوں سے ملانا اور ان کے رہن سہن کو قریب سے سمجھنے کا موقع دینا ہے۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں مقامی لوگ اپنی ثقافت، اپنے فن اور اپنی مہمان نوازی سے دنیا کو روشناس کرا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف سیاحوں کو ایک منفرد تجربہ ملے گا بلکہ مقامی لوگوں کو بھی اپنی محنت کا پھل ملے گا۔ مجھے یہ سوچ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہم اس طرح سے اپنے پیارے پاکستان کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں۔
سیاحوں کی دل کی بات کیسے جانیں؟
صارفین کی ضروریات کا گہرائی سے تجزیہ
دوستو! مجھے ہمیشہ یہ بات بہت اہم لگی ہے کہ کسی بھی کام میں کامیابی کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارے مخاطب کیا چاہتے ہیں۔ دیہی سیاحت میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ایک سیاح دیہی علاقے میں آ کر کیا تلاش کر رہا ہے تو ہم اسے بہترین تجربہ دے سکتے ہیں۔ میرے ذاتی مشاہدے میں آیا ہے کہ لوگ اب صرف اچھی ہوٹل اور خوبصورت نظارے نہیں چاہتے، بلکہ وہ ایک مستند اور جذباتی تجربہ چاہتے ہیں۔ انہیں ہماری ثقافت میں ڈوب جانا ہوتا ہے، مقامی لوگوں سے بات چیت کرنی ہوتی ہے، ان کے کھانے چکھنے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے سیاح اس لیے آتے ہیں تاکہ وہ شہر کی مصنوعی زندگی سے نکل کر فطرت کے قریب اصلیت کا تجربہ کر سکیں۔ انہیں ایڈونچر بھی چاہیے اور سکون بھی۔ یہ سب سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے رویوں، ترجیحات اور توقعات کا تجزیہ کرنا ہو گا۔ میرے خیال میں ان سے براہ راست بات کرنا، ان کے تاثرات لینا اور ان کی سفری تاریخ کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔
یادگار تجربات کی تشکیل
جب ہم سیاح کی ضروریات کو سمجھ لیتے ہیں، تو اگلا قدم ان کے لیے ایسے تجربات تیار کرنا ہوتا ہے جو وہ کبھی نہ بھولیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے ایک بار ایک غیر ملکی دوست کو اپنے گاؤں مدعو کیا تھا، تو میں نے اسے نہ صرف کھیتوں میں سیر کروائی بلکہ اسے ایک کسان کے ساتھ ہل چلاتے ہوئے اور روایتی طریقے سے روٹی پکاتے ہوئے بھی دکھایا۔ وہ اس تجربے سے اتنا متاثر ہوا کہ آج تک اسے یاد کرتا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے کہ ہم کس طرح معمولی چیزوں کو یادگار بنا سکتے ہیں۔ سیاحوں کو مقامی میلوں، تہواروں اور روایتی کھیلوں میں شامل کرنا، انہیں مقامی دستکاری سکھانا، یا انہیں رات کو کھلے آسمان تلے ستارے دکھانا – یہ سب ایسے تجربات ہیں جو ان کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب سیاح خود کو کسی جگہ کا حصہ سمجھتے ہیں، تو وہ اس جگہ سے ایک گہرا تعلق محسوس کرتے ہیں اور خوشی خوشی دوسروں کو بھی اس بارے میں بتاتے ہیں۔ یہی ہمارے لیے سب سے بڑی تشہیر ہے۔
مقامی ثقافت اور مہمان نوازی کا جادو
روایتی مہمان نوازی کی اصل روح
میرے عزیز دوستو! ہمارے ملک میں مہمان نوازی ایک ایسا جوہر ہے جو دنیا میں ہماری پہچان ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب بچپن میں ہمارے گھر کوئی مہمان آتا تھا تو امی ابو کیسے ہر چیز کو پرفیکٹ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ جذبہ آج بھی ہمارے دیہی علاقوں میں زندہ ہے۔ یہ صرف روایتی کھانے کھلانا یا اچھی رہائش فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ دل سے عزت دینا اور مہمان کو اپنے گھر کا فرد سمجھنا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب کوئی غیر ملکی سیاح ہمارے دیہات میں آتا ہے تو اسے اس طرح سے خوش آمدید کہا جاتا ہے جیسے وہ کوئی پرانا دوست ہو۔ اسے چائے، لسی اور تازہ پھلوں سے تواضع کی جاتی ہے اور مقامی لوگ اس سے کھل کر بات کرتے ہیں۔ یہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو سیاح کے دل پر گہرا اثر ڈالتی ہیں اور اسے یہ احساس دلاتی ہیں کہ وہ صرف ایک گاہک نہیں، بلکہ ایک عزیز مہمان ہے۔
ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنا
ہماری ثقافت ہزاروں سال پرانی ہے اور ہمارے دیہی علاقوں میں اس کے ان گنت رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ لوک موسیقی، روایتی رقص، دستکاری، داستان گوئی اور قدیم طرز تعمیر – یہ سب ہماری پہچان ہیں۔ دیہی سیاحت ہمیں یہ موقع دیتی ہے کہ ہم ان سب چیزوں کو دنیا کے سامنے لائیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میں نے ایک دفعہ کسی دور دراز گاؤں میں لوک فنکاروں کو اپنے آلات پر پرفارم کرتے دیکھا تھا، وہ لمحہ اتنا سحر انگیز تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ سیاح ایسے ہی اصلی تجربات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ انہیں صرف دیکھنا نہیں ہوتا، بلکہ انہیں ان چیزوں میں شامل ہونا ہوتا ہے، انہیں خود بنانا ہوتا ہے اور انہیں اپنے ساتھ لے جانا ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف ہماری ثقافت کو فروغ ملتا ہے بلکہ ان فنکاروں اور دستکاروں کو بھی مالی فائدہ ہوتا ہے جو کئی نسلوں سے ان فنون کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
پائیدار سیاحت: آج کا قدم، کل کی ضمانت
قدرتی ماحول کا تحفظ
ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمارے دیہی علاقوں کی سب سے بڑی خوبصورتی ان کا قدرتی ماحول ہے۔ صاف پانی، تازہ ہوا، جنگلی حیات اور سرسبز شاداب منظر – یہ سب ایسی نعمتیں ہیں جنہیں ہمیں ہر حال میں محفوظ رکھنا ہے۔ دیہی سیاحت کا منصوبہ بناتے وقت ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ اس سے ماحول پر کوئی برا اثر نہ پڑے۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ اگر ہم آج ان وسائل کی قدر نہیں کریں گے تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں سیاحوں کو بھی یہ تعلیم دینی چاہیے کہ وہ ماحول کا احترام کریں، کچرا نہ پھیلائیں اور مقامی وسائل کو احتیاط سے استعمال کریں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے جب میں کہیں بھی کچرا پھیلا ہوا دیکھتا ہوں، اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام کرے۔
مقامی آبادی کی ترقی اور شمولیت
پائیدار سیاحت کا مطلب صرف ماحول کا تحفظ نہیں، بلکہ مقامی آبادی کی فلاح و بہبود بھی ہے۔ جب سیاحت سے حاصل ہونے والا فائدہ مقامی لوگوں تک پہنچتا ہے تو وہ خود کو اس عمل کا حصہ محسوس کرتے ہیں اور اسے مزید بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب ایک مقامی شخص خود اپنے مہمانوں کی دیکھ بھال کرتا ہے اور انہیں اپنی ثقافت سے روشناس کراتا ہے تو اس کے چہرے پر ایک عجیب سی خوشی اور فخر ہوتا ہے۔ ہمیں ان کو تربیت دینی چاہیے تاکہ وہ سیاحوں کے ساتھ بہتر طریقے سے ڈیل کر سکیں، انہیں زبان سکھانی چاہیے اور انہیں چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں مدد دینی چاہیے۔ اس طرح وہ خود بھی خوشحال ہوں گے اور سیاحت کا شعبہ بھی مزید مضبوط ہو گا۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جہاں ہر کوئی فائدہ اٹھاتا ہے۔
مالیاتی فوائد اور مقامی معیشت کی مضبوطی
دیہی علاقوں میں روزگار کے نئے مواقع
یار! جب میں سوچتا ہوں کہ ہمارے دیہی علاقوں میں کتنے باصلاحیت نوجوان ہیں جنہیں روزگار کے مواقع نہیں ملتے، تو میرا دل دکھتا ہے۔ لیکن دیہی سیاحت اس مسئلے کا ایک شاندار حل پیش کرتی ہے۔ جب سیاح آتے ہیں تو انہیں رہائش، کھانے پینے، ٹرانسپورٹ اور گائیڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب چیزیں مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے دروازے کھولتی ہیں۔ میں نے خود کئی بار دیکھا ہے کہ ایک چھوٹا سا گیسٹ ہاؤس یا ایک چھوٹا سا ڈھابہ، جو ایک مقامی خاندان چلا رہا ہے، کیسے ان کی زندگی بدل دیتا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں اس شعبے میں کام کر سکتے ہیں، کوئی کھانا پکائے گا، کوئی مہمانوں کی رہنمائی کرے گا، اور کوئی اپنی دستکاری کی چیزیں بیچے گا۔ یہ صرف ملازمتیں نہیں ہیں، بلکہ یہ خود مختاری اور عزت نفس کا احساس ہیں۔ مجھے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ اگر ہم اپنے لوگوں کو مواقع دیں تو وہ خود ہی راستہ بنا لیں گے۔
مقامی مصنوعات اور خدمات کی مارکیٹنگ
ہمارے دیہی علاقوں میں اتنی خوبصورت چیزیں بنتی ہیں، جیسے ہاتھ سے بنی شالیں، کڑھائی والے کپڑے، لکڑی کا کام اور خالص شہد وغیرہ۔ لیکن انہیں صحیح مارکیٹ نہیں ملتی۔ دیہی سیاحت انہیں ایک براہ راست پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے جہاں وہ اپنی مصنوعات سیاحوں کو براہ راست بیچ سکتے ہیں۔ میں نے خود کئی بار سیاحوں کو مقامی بازاروں میں چیزیں خریدتے دیکھا ہے اور وہ واقعی ان کے معیار اور اصلیت کو سراہتے ہیں۔ اس سے نہ صرف مقامی کاریگروں کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے فن کو مزید نکھاریں۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ہماری ثقافت اور معیشت دونوں ایک ساتھ پروان چڑھتی ہیں۔ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں میں بے پناہ صلاحیت ہے، بس ہمیں اسے صحیح طریقے سے استعمال کرنا ہے۔
چیلنجز اور ان کا حل: ایک عملی جائزہ

بنیادی ڈھانچے کی کمی کو پورا کرناسیاحت کو محفوظ اور قابل اعتماد بنانا
سیاحوں کی حفاظت اور ان کا اعتماد جیتنا سب سے اہم ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہماری حکومت سیاحتی مقامات پر سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ لیکن ہمیں مقامی سطح پر بھی لوگوں کو یہ سمجھانا ہو گا کہ سیاح ہمارے مہمان ہیں اور ان کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ جب ایک سیاح خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے تو وہ کھل کر لطف اٹھاتا ہے اور دوسروں کو بھی آنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ہمیں سیاحتی پولیس، مقامی گائیڈز اور مقامی کمیونٹیز کو ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ ہم ایک محفوظ اور خوشگوار ماحول فراہم کر سکیں۔ اس کے علاوہ، سیاحوں کے لیے ایمرجنسی سروسز اور معلومات کی دستیابی کو بھی یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔
| عنصر | دیہی سیاحت میں اہمیت | کسٹمر کی توقعات |
|---|---|---|
| مقامی ثقافت | دیہی زندگی کی اصلیت، روایتی فنون اور طرز زندگی کا مظاہرہ | اصلی تجربات، مقامی لوگوں سے میل جول، ثقافتی تقریبات میں شرکت |
| قدرتی خوبصورتی | سبزہ، پہاڑ، ندیاں اور پرسکون ماحول | صاف ہوا، سکون، ایڈونچر (ٹری کنگ، پرندوں کا مشاہدہ) |
| مہمان نوازی | مقامی لوگوں کی گرمجوشی اور عزت کا رویہ | دوستانہ ماحول، ذاتی توجہ، مقامی کھانوں کا تجربہ |
| پائیداری | ماحول کا تحفظ اور مقامی کمیونٹی کی فلاح و بہبود | ذمہ دارانہ سیاحت، ماحول دوست سرگرمیاں، مقامی معیشت کی حمایت |
اختتامی کلمات
میرے دوستو، مجھے امید ہے کہ دیہی سیاحت کے اس سفر میں آپ نے بھی اتنا ہی لطف اٹھایا ہوگا جتنا میں نے آپ سے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے محسوس کیا۔ یہ محض ایک تفریحی سرگرمی نہیں، بلکہ ہمارے ملک کے دیہاتوں کی روح کو سمجھنے، وہاں کے لوگوں سے دل کے رشتے قائم کرنے اور اپنے خوبصورت ورثے کو محفوظ رکھنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یہ مجھے ہمیشہ خوشی دیتا ہے کہ ہم کس طرح چھوٹے چھوٹے اقدامات سے بڑے مثبت اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب مل کر اپنے دیہی علاقوں کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں تاکہ ہر کوئی اس خوبصورتی سے لطف اندوز ہو سکے۔
کچھ مفید معلومات
1. سفر پر جانے سے پہلے ہمیشہ مقامی رسم و رواج اور ثقافت کے بارے میں تحقیق کر لیں تاکہ آپ وہاں کے لوگوں کے ساتھ بہتر طریقے سے گھل مل سکیں۔
2. مقامی گائیڈز کی خدمات حاصل کریں؛ وہ نہ صرف آپ کو بہترین جگہیں دکھائیں گے بلکہ آپ کی حفاظت اور تجربے کو بھی یادگار بنا دیں گے۔
3. ہمیشہ اپنے ساتھ ضروری ادویات، پانی اور کچھ ہلکا پھلکا ناشتہ ضرور رکھیں، کیونکہ دیہی علاقوں میں فوری طور پر ہر چیز دستیاب نہیں ہوتی۔
4. مقامی دستکاری اور مصنوعات خرید کر مقامی معیشت کی مدد کریں، اس سے کاریگروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور آپ کو ایک منفرد یادگار بھی ملے گی۔
5. ماحول کا خاص خیال رکھیں، کچرا کوڑے دان میں ڈالیں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جو قدرتی خوبصورتی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اہم نکات کا خلاصہ
دیہی سیاحت نہ صرف سیاحوں کو منفرد تجربات فراہم کرتی ہے بلکہ مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرکے انہیں خوشحال بھی بناتی ہے۔ یہ ہماری ثقافت اور قدرتی ماحول کو محفوظ رکھنے کا ایک پائیدار طریقہ ہے، جس میں ہر فرد کی شمولیت اور ذمہ داری بہت اہم ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: دیہی سیاحت کی منصوبہ بندی کیوں اتنی اہم ہے اور اسے مؤثر بنانے کے لیے کن باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے؟
ج: دیکھو میرے دوستو، دیہی سیاحت کی منصوبہ بندی محض جگہوں کی فہرست بنانے کا نام نہیں ہے۔ یہ تو ایک آرٹ ہے، ایک ایسا تجربہ تخلیق کرنے کا فن جو سیاحوں کے دلوں کو چھو جائے۔ میں نے خود یہ محسوس کیا ہے کہ اگر ہم بغیر سوچے سمجھے کوئی بھی پیکیج بنا دیں تو وہ کبھی اتنا کامیاب نہیں ہوتا جتنا ایک اچھی طرح سے منصوبہ بند سفر۔ اس کی اہمیت اس لیے ہے کہ ہم اپنے دیہی علاقوں کی اصلی روح کو، ان کی ثقافت، ان کی سادگی اور قدرتی خوبصورتی کو بغیر کسی نقصان کے دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس علاقے کی منفرد چیز کیا ہے؟ کیا وہاں تاریخی مقامات ہیں، کوئی خاص تہذیبی رواج ہے یا صرف قدرتی مناظر؟ پھر مقامی لوگوں کو اس منصوبے کا حصہ بنانا بہت ضروری ہے، کیونکہ ان کے بغیر دیہی سیاحت کا تصور ہی نامکمل ہے۔ ان کی مہمان نوازی، ان کے ہاتھوں کے بنے کھانے، ان کی کہانیاں – یہ سب سیاحوں کے لیے ایک انمول خزانہ ہوتا ہے۔ ہمیں انفراسٹرکچر پر بھی توجہ دینی چاہیے، جیسے صاف ستھری رہائش، پینے کا صاف پانی اور تھوڑی بہت سڑکیں۔ لیکن یاد رہے کہ شہر جیسی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش میں ہم دیہی پن کو نہ کھو دیں۔ آخر میں، ماحول کا خیال رکھنا سب سے اہم ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہم یہ سب باتیں مدنظر رکھیں گے تو ہمارے علاقے میں آنے والا ہر سیاح ایک خوبصورت یاد لے کر واپس جائے گا اور دوسروں کو بھی آنے کی ترغیب دے گا۔
س: سیاحوں کی حقیقی خواہشات کو کیسے پہچانا جائے تاکہ دیہی سیاحت کو مزید کامیاب بنایا جا سکے؟
ج: یہ سوال بہت اہم ہے، اور سچ پوچھو تو میرے بھی بہت سے تجربات اس سے جڑے ہیں۔ جب میں نے پہلی بار دیہی سیاحت کا کام شروع کیا تو میں بھی یہی سوچتا تھا کہ بس خوبصورت جگہ دکھا دو اور کام ہو گیا۔ لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ یہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ سیاحوں کی حقیقی خواہشات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک طرح سے ان کے جوتوں میں قدم رکھ کر سوچنا ہوتا ہے۔ سب سے بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ ان سے براہ راست بات کی جائے، ان کی رائے لی جائے، ان سے پوچھا جائے کہ انہیں کیا چیز سب سے زیادہ پسند آئی اور کیا کمی محسوس ہوئی؟ سوشل میڈیا اور آن لائن سروے بھی اس میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سیاحوں کے رویے کا مشاہدہ کرنا بھی ضروری ہے۔ وہ کن چیزوں پر زیادہ وقت گزارتے ہیں؟ کس طرح کی سرگرمیوں میں انہیں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے؟ کیا وہ سکون کے متلاشی ہیں یا ایڈونچر کے؟ بعض سیاحوں کو مقامی ثقافت میں گہرائی سے دلچسپی ہوتی ہے، وہ کھانا پکانا سیکھنا چاہتے ہیں یا کسی لوک فنکار سے ملنا چاہتے ہیں۔ جبکہ کچھ صرف فطرت کے حسین مناظر دیکھ کر سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم ان کی ان چھپی ہوئی خواہشات کو سمجھ لیتے ہیں تو پھر ہم ایسے پیکیجز بنا سکتے ہیں جو ان کی توقعات سے بڑھ کر ہوں۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب آپ کسی سیاح کو وہ چیز فراہم کرتے ہیں جس کی اسے تلاش ہوتی ہے، بھلے ہی اس نے خود وہ ظاہر نہ کی ہو، تو اس کے چہرے پر جو خوشی آتی ہے، وہی ہماری اصل کمائی ہوتی ہے۔
س: پاکستان میں دیہی سیاحت کے فروغ کے لیے کیا مواقع اور چیلنجز ہیں، اور ہم انہیں کیسے حل کر سکتے ہیں؟
ج: پاکستان میں دیہی سیاحت کے لیے مواقع تو بے پناہ ہیں، میرے بھائیو اور بہنو! ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی خوبصورتی سے نوازا ہے۔ پہاڑ، صحرا، ندیاں، جھیلیں، سرسبز وادیاں، تاریخی مقامات – یہاں سب کچھ ہے۔ گلگت بلتستان جیسے علاقے تو عالمی سطح پر اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پہچانے جا رہے ہیں اور یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ہر گوشے میں ایک نیا جہان چھپا ہے۔ حکومت بھی سیاحت کے فروغ کے لیے کوششیں کر رہی ہے، ویزا پالیسیوں میں نرمی اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کی بات ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ بہت امید افزا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ 2025 تک سیاحت کی آمدنی 4 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، تو دیہی سیاحت کا اس میں بہت بڑا حصہ ہو سکتا ہے۔لیکن، سچ کہوں تو چیلنجز بھی کم نہیں ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج تو بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ دیہی علاقوں میں اچھی سڑکیں، صاف ستھری رہائش، اور صاف پانی کی کمی ہے۔ پھر صفائی کا مسئلہ بھی ہے، ہمیں اپنی خوبصورت جگہوں کو گندگی سے پاک رکھنا ہو گا۔ اس کے علاوہ، سیکورٹی کا معاملہ بھی ہے، حالانکہ حالات پہلے سے بہت بہتر ہوئے ہیں لیکن سیاحوں کو مکمل تحفظ کا احساس دلانا بہت ضروری ہے۔ سیاحتی پالیسیوں میں بھی مزید بہتری کی گنجائش ہے تاکہ سب ایک ہی سمت میں کام کر سکیں۔اب بات یہ ہے کہ ہم انہیں حل کیسے کریں؟ اس کے لیے سب سے پہلے تو مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنانا ہو گا، انہیں تربیت دینی ہو گی اور انہیں چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کرنے میں مدد کرنی ہو گی۔ ہوم سٹے اور مقامی گائیڈ جیسے تصورات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بناتے ہوئے ماحول کا خیال رکھنا لازم ہے۔ صفائی کے لیے مقامی سطح پر آگاہی مہم چلانی چاہیے اور سیاحوں کو بھی ذمہ داری کا احساس دلانا چاہیے۔ حکومت اور نجی شعبے کے درمیان تعاون بہت اہم ہے تاکہ مشترکہ منصوبے بنائے جا سکیں اور ملک بھر میں دیہی سیاحت کو ایک مربوط انداز میں فروغ دیا جا سکے۔ اگر ہم مل کر کام کریں گے، تو مجھے یقین ہے کہ ہمارے دیہی علاقے دنیا کے نقشے پر ایک شاندار سیاحتی مقام کے طور پر ابھریں گے اور ہمارے نوجوانوں کے لیے روزگار کے ان گنت مواقع پیدا ہوں گے۔






